گولا باری کا سلسلہ صبح سے جاری تھا اور دوپہر تک جگہ جگہ سے درختوں اور مکانوں سے شعلے اور دھواں اٹھتا رہا تھا۔ زیادہ تر مکان ملبے اور راکھ کے ڈھیر میں بدل چکے تھے ۔ یہ وزیرستان کا وہ علاقہ تھا ، جو خشک اور بنجر زمین رکھتاہے ۔ شہر سے باہر اس علاقے میں تیزی سے آباد کاری ہو رہی تھی ۔ لوگ شہرچھوڑ رہے تھے ۔ ہر طرف کیمپ لگے ہوئے تھے ، لیکن زیادہ تر لوگ کھلے آسمان تلے بے یار و مدد گار پڑے تھے ۔ بھوک اور بیماری نے مستقبل کے حوالے سے انھیںبے حس بنا دیا تھا ۔
کہنے کو تو حکومت کی طرف سے خوراک اور طبی امداد مہیا کی جا رہی تھی ، مگر وہ تعداد کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر تھی ۔کل کا پورا دن گزر گیا اور اب سورج کی تپش میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا ۔اب تک خوراک نہیں پہنچی تھی ، جو تھوڑی بہت خشک خوراک موجود تھی ، وہ تقسیم کر دی گئی تھی۔ میں پاکستانی فوج کے اس دستے میں شامل تھا ، جس کا کام امن و امان بحال کرنا تھا ۔ میری ڈیوٹی خوراک تقسیم کرنے پر تھی ۔ آج مجھے دوسرا ہفتہ ہو رہا تھا ۔ مجھے سخت بے زاری ہو رہی تھی ۔ لوگ مجھ سے بار بار خوراک کا پوچھتے اور میں انھیں ایک ہی جواب دے دے کر تنگ آ گیا تھا ۔
اسی وقت جب میں سامنے زمین پر ایک چیونٹی کو گوشت کا سڑا ٹکڑا لے جانے کی کوشش میں مصروف دیکھ رہا تھا کہ میرے آگے ۲؍ برہنہ پاؤں ٹھہر گئے ۔ مجھے بغیر اوپر دیکھے پتا چل گیا کہ یہ ننگے پاؤں کس کے ہیں ۔’’ولی خان ! ‘‘میرا لہجہ سخت تھا ۔
’’فوجی لالہ ! وہ … وہ میں … ‘‘
’’
میں نے تمھیں کتنی بار کہا ہے کہ مجھے لالہ نہ کہا کرو۔‘‘میرا لہجہ مزید سخت ہو گیا ۔ مجھے پٹھانوں کا ایک واقعہ یاد آ گیا ۔ اس واقعے میں ایک فوجی کو سب فوجی لالہ کہتے تھے ، مگر وہ بہت ظالم انسان تھا ۔
’’مگر میں تمھیں فوجی لالہ ہی کہوں گا ۔‘‘ اس نے فیصلہ کن لہجے میں کہا ۔
’’
وہ کیوں ؟ ‘‘ میرا لہجہ سرد ہو گیا ۔’’ تمھاری شخصیت ہی ایسی ہے ۔ مجھے یہی تاثر ملتا ہے کہ تمھارا نام فوجی لالہ ہونا چاہیے ۔ شاید مجھ سے اپنی بات کی وضاحت اچھی طرح سے نہیں ہو رہی ۔‘‘
’’
کس لیے آئے ہو ؟ ‘‘تنگ آ کر میں نے موضوع بدلا ۔ حالاں کہ مجھے اس کے آنے کا مقصد اچھی طرح معلوم تھا ۔ وہ ۱۲؍ برس کا سرخ و سفید لڑکا تھا ۔ اس کے جسم پر لباس نام کی صرف شلوار تھی ۔ بال سخت اور کھردرے تھے ۔ اس کی حالت سے لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ بارہ تیرہ برس کا نو عمر لڑکا ہے ۔ حالات کی سختیوں نے اسے وقت سے پہلے ہی سخت بنا دیا تھا ۔ بھوک اور غربت کے با وجود مجھے کبھی اس کی موٹی موٹی آنکھوں میں التجا نہیں دکھائی دی ۔ حالاں کہ وہ بچہ تھا اور اسے سب سے بڑی فکر کھانے کی ہونا چاہیے تھی ، مگر ایسا لگتا تھا جیسے اسے کھیلتے کھیلتے کھانا یاد آ جاتا تھا اور وہ یہاں چلا آتا ۔ جواب میں انکار سن کر وہ اپنی بھوک کو بھول کر دوبارہ کھیلنے میں مصروف ہو جا تا ۔’’مجھے بہت بھوک لگی ہے ۔‘‘ اس نے جیسے اعلان کیا۔
’’
مگر کھانا ابھی تک نہیں آیا ۔ ‘‘ میں نے وہی رٹا رٹایا جواب دہرایا ، جسے بار بار دہرا کر میں اس حد تک تنگ آ چکا تھا
کہ اسے دہراتے ہوئے میرے پیٹ میں بل پڑ جاتے تھے ۔
’’ مگر مجھے بہت بھوک لگی ہے ، میں نے کل سے کچھ نہیں کھایا ۔‘‘
’’ جوں ہی کھانا آئے گا ، میں سب سے پہلے تمھیں ہی بتاؤں گا ۔ شاباش ! اب جا کر کھیلو ۔‘‘
’’میرا کھیل میں جی نہیں لگتا ۔ ‘‘اس نے جواب دیا ۔
میں کچھ دیر اس کابھوک زدہ چہرہ تکتا رہا ۔ پھر میں نے سر کھجا کر کہا ۔’’ اچھا ! جاؤ اور کچھ دیر سو جاؤ ۔ مجھے لگتا ہے کہ تم پچھلی رات نہیں سوئے ۔‘‘
’’
میری امی کہتی تھیں کہ بھوکا سونے سے آدمی بیمار ہو جاتا ہے ۔‘‘ اس نے ایک اور دلیل دی ۔
میں نے ایک گہرا سانس لیا اور بے چینی سے اِدھر اُدھر ٹہلنے لگا ۔ میرے پاس اسے اطمینان دلانے کے لیے کوئی کار گر دلیل نہیں تھی ۔ وہ مضبوطی سے اپنی جگہ پر جما کھڑا تھا ۔ مجھے یقین ہو چکا تھا کہ اس بار اسے جھوٹا دلاسا دے کر ٹالا نہیں جا سکتا ، لیکن پھر بھی اپنی طرف سے میں نے کوشش کرنا چاہی ۔ میں نے اپنے مضبوط ہاتھ اس کے شانوں پر رکھے اور یقین دلانے والے لہجے میں کہا :’’ دیکھو ! اس وقت کچھ بھی نہیں ۔ سب کچھ ختم ہو چکا ہے ۔ اگر میرے اپنے حصے کا بھی کھانا موجود ہوتا ، تو وہ میں تمھیں دے دیتا ۔ آخر تمھیں یقین کیوں نہیں آتا ! ! ‘‘
’’
مگر میں تمھارے حصے کا کھانا نہیں کھاتا ۔ ‘‘ اس نے میرے ہاتھ جھٹکے ۔ ’’ مجھے اپنے حصے کا کھانا چاہیے ۔ تمھیں میرے لیے بھوکا رہنے کا سوچنا بھی نہیں چاہیے ۔ ‘‘
میں نے اس کی بات پر طنزیہ قہقہہ لگانا چاہا ، مگر یہ جان کر میں بہت حیران ہوا کہ میری آنکھوں میں دھندلا پن اور گلے میں آنسوؤں کی نمکینی سی پھیل گئی ہے ۔ اچانک مجھے اس معصوم بچے پر ترس آنے لگا اور خود سے گھن سی آنے لگی ۔ آج صبح ناشتے میں ، میں نے جی بھرنے کے بعد بھی بہت کچھ کھا لیا تھا ، جس کی وجہ سے مجھے ہضم کرنے کے لیے بڑی دیر تک چہل قدمی کرنا پڑی تھی ۔’’ اگر تم صبح آ جاتے ، تو … ‘‘ میں نے پہلے کی طرح مضبوط لہجے میں کہنا چاہا ، مگر میرا لہجہ اور الفاظ ایک دوسرے سے بالکل میل نہیں کھاتے تھے ۔
’’
میں رات کو دیر سے سویا تھا ، اس لیے صبح دیر تک سویا رہا ۔ ‘‘اس نے میری بات کاٹ کر کہا ۔
’’ کیا تمھیں بہت زیادہ بھوک لگی ہے ؟ ‘‘
یہ سن کر اس کی آنکھیں چمکیں ۔
’’ ہاں ، ہاں ! میں نے کل سے کچھ نہیں کھایا ۔‘‘
اس کے سینے کی ہڈیاں آسانی سے گنی جا سکتی تھیں ۔ پیٹ بھوک کی وجہ سے کمر سے لگ گیا تھا ۔ میں سوچنے لگا، مجھے اس کے لیے کچھ کرنا چاہیے ، مگر میں کیا کرتا ، کیوں کہ خوراک ابھی تک نہیں پہنچی تھی ۔’’کچھ بھی مل جائے ۔‘‘ اس نے بات جاری رکھی ۔ ’’ کچھ بھی … بسکٹ کاایک آدھ ٹکڑا … ایک کھجور کا دانہ … کوئی بھی چیز … ‘‘
جانے کیوں مجھے معدے میںا ینٹھن سی اٹھتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ میں نے اس کی طرف پیٹھ کی اور جھک کر تسمے باندھنے کے بہانے آنسو صاف کر نے لگا ۔
’’
میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ ‘‘ میں نے یکایک ایک فیصلہ کرتے ہوئے کہا ۔
’’ تمھیں یقین ہے کہ میرے لیے کچھ نہ کچھ مل جائے گا ! ‘‘ اس کی آنکھیںامید کی کرن سے جگمگانے لگیں ۔
مجھے پتا تھا کہ اس کی امید بہت کم تھی ، مگر میں اسے نفی میں جواب دے کر اس کے ننّے سے دل کو توڑنا نہیں چاہتا تھا … یا … پھر شاید مجھ میں انکار کرنے کی ہمت نہ تھی ۔’’ ہاں ! مجھے یقین ہے ۔ ‘‘ میں نے اس کے روئی کی طرح نرم نرم رخساروں کو تھپتھپایا ۔ ’’ تم دعا کرو ۔ ‘‘
اس نے اثبات میں سر ہلایا جیسے کھانا حاصل کرنے میں اس حصے کی کوشش صرف دعا تک ہے اوروہ اپنے حصے کاکام اچھی طرح سے پوراکرے گا ۔
’’ آؤ … چلیں ! ہم اپنی تلاش کا آغاز راشن ڈپو سے کرتے ہیں ۔‘‘
ہم دونوں اکٹھے ہی راشن ڈپو کی طرف چل دیے ۔ میری انگلی اس کے ننّے سے نرم ہاتھ میں تھی ۔ اس کے ساتھ چلتے ہوئے مجھے بڑا سکون محسوس ہو رہا تھا ۔
’’
تم بہت اچھے ہو ۔ ‘‘ وہ بہت باتونی تھا ۔ وہ چپ ہوتا ہی نہیں تھا ۔ ’’ تم سے پہلے جو فوجی لالہ تھا ، وہ بہت سخت تھا ۔ مجھے اس کے پاس جاتے ہوئے بڑا خوف آتا تھا ۔ پتا ہے … اس کے غصے کی سب سے بڑی نشانی کیا تھی ؟ ‘‘’’ کیا تھی ؟ ‘‘
’’وہ اپنی ہی ٹانگ پر بڑے زور زور سے بید مارتا تھا جانے کیوں … ؟ کیا اسے درد نہیں ہوتا تھا ؟‘‘
’’ کیا پتا … نہ ہوتا ہو ۔ ‘‘
’’ میرا خیال ہے کہ ہوتا ہو گا ۔ میں نے ایک دن اپنی چھڑی اپنی ٹانگ پر ماری تھی ، تو مجھے بہت درد ہوا تھا … حالانکہ میں نے اتنے زور سے بھی نہیں ماری تھی ۔ ‘‘ پھر وہ پر خیال انداز میں خود ہی نتیجہ نکالنے لگا ۔ ’’ مگر یوں بھی تو ممکن ہے کہ میری ٹانگ ننگی تھی اور اس کی ٹانگ پر موٹے کپڑے کی وردی تھی ۔ جس طرح کی تمھاری ہے ۔ ‘‘
وہ میری وردی کی طرف اشارہ کر رہا تھا ۔
’’ لو ! راشن ڈپو آ گیا ۔ ‘‘ میں نے اسے بتایا ۔
’’
تم دیکھ آؤ ۔ میں ادھر ہی دروازے پر کھڑا رہوں گا۔‘‘میں اندر داخل ہو گیا ۔ وہاں خالی ڈبوں کا ڈھیر موجود تھا ۔ میں بڑی دیر تک کونا کونا کھنگالتا رہا ، مگر مجھے کچھ نہ ملا۔ میں جب باہر نکلا ، تو میرا سر جھکا ہوا تھا ۔
’’ ولی خان ! مجھے افسوس ہے کہ … ‘‘
’’
کوئی بات نہیں فوجی لالہ ! مگر ہمیں اپنی تلاش جاری رکھنی چاہیے ۔ ‘‘ اس نے میری بات کاٹ دی ۔
ہم میس کی طرف چل پڑے ۔ یہاں کھانا ملنے کی اُمید نہ ہونے کے برابر تھی ۔ ہمارا کھانا وقت پر آ جاتا تھا اور جو بچ جاتا ، اسے بھوکے لوگوں میں بانٹ دیا جاتا ۔ مگر میں اس مبہم امید پر جا رہا تھا کہ شاید کچھ مل جائے ۔ ایک آدھ روٹی کا ٹکڑا … ایک بسکٹ … کوئی بھی چیز ۔
’’
تم کہاں سے آئے ہو ؟ ‘‘ چند لمحوں بعد اس نے چلتے چلتے خاموشی کو توڑا ۔
’’ پنجاب سے ۔‘‘
’’ کیا وہاں جنگ ہوتی ہے … کیا وہاں بھی لوگ بھوکے سوتے ہیں … کیا وہاں بھی بچوں کے امی ابو بارود میں جل کر راکھ ہو جاتے ہیں ۔‘‘یہ سن کر میرے گلے میں کانٹے سے چبھنے لگے ۔
’’ تمھارے امی ابو کہاں ہیں ؟ ‘‘
’’
گزشتہ مہینے جو بمباری ہوئی تھی نا … ! اس میں سے ایک بم ہمارے گھر پر گرا تھا ۔ امی ابو دونوں ہی مر گئے۔ ان کے جسموں کے ٹکڑے ٹکڑے اڑ گئے ۔ ‘‘ وہ سوچ میں پڑ گیا تھا ۔ ’’ مگر مجھے یہ سب کچھ بہت عجیب سا لگتا ہے ۔ ہر وقت مجھے دکھائی دینے والے امی ابو اب مجھے کبھی بھی دکھائی نہیں دیں گے ۔ مجھے یہ سب کچھ مصنوعی سا لگتا ہے اور کبھی کبھی تکلیف دہ بھی … کبھی کبھی مجھے بڑی شدت سے ان کی طلب ہوتی ہے … ان کی گود کی … ان کے پیار کی ۔ میرے پاس بہت سی باتیں جمع ہو جاتی ہیں ، مگر اب میں انھیں پہلے کی طرح سنا نہیں سکتا ، تو میرا سینہ پھٹنے لگتا ہے ۔ پھر میں یہ ساری باتیں پومی سے کر لیتا تھا ۔‘‘
وہ خاموش ہو گیا ۔ ہمارے درمیان خاموشی کا ایک لمباوقفہ در آیا ۔ صرف ہمارے قدموں کی چاپ ہمیں سنائی دے رہی تھی ۔ میں اس سے پوچھنا چاہتا تھا کہ یہ پومی کون ہے ، مگر مجھے خوف تھا کہ اگر میں بولا ، تو وہ رونے لگے گا ۔اسی دوران ہم میس پہنچ گئے ۔ میرا دل رو رو کر التجا کر رہا تھا کہ کھانے کو کچھ مل جائے ۔ اس وقت بھری کائنات مجھے بڑی فضول اور بے رنگ سی لگ رہی تھی ۔ مجھے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے اب میری زندگی کا مقصد کھانا حاصل کرنا
ہے ، جو اس ننّے سے پیٹ میں لگی بھوک کی آگ کو بجھا دے ۔
مین گیٹ کے پاس جا کر وہ ٹھہر گیا اور سابقہ فقرہ دہرایا ۔ ’’ تم جاؤ ! میں یہاں ٹھہر کر تمھارا انتظار کروں گا ۔‘‘
میں نے سر ہلایا اور اندر جانے لگا ، تو اس نے مجھے پھر آواز دی ۔
’’
فوجی لالہ ! ‘‘میں نے مڑ کر اس کی طرف کن انکھیوں سے جواب طلب نظروں سے دیکھا ۔
’’ میں دعا کروں گا ۔ ‘‘اس نے اپنے چھوٹے سے ہاتھ دعا کے لیے اٹھا لیے ۔
’’ ضرور بیٹا ! کبھی کبھی سارے مسئلے ایک دعا سے ہی حل ہو جاتے ہیں ۔ ‘‘ میں نے ہونٹ بھینچ کر کہا ۔
’’ اللہ تعالیٰ تمھیں کامیاب کرے ؟ ‘‘ اچانک اس کا لہجہ بزرگانہ ہو گیا ۔
میں اندر داخل ہو گیا ۔ میس میں سناٹا تھا ۔ میس انچارج کاؤنٹر کے پیچھے کرسی پر سو رہا تھا ۔ میں نے میس کا کونا کونا چھان مارا ، مگر مجھے روٹی کا ایک خشک ٹکڑا بھی کہیں دکھائی نہ دیا ۔ مجھے مایوسی کی حالت میں بڑا غصہ آنے لگا ۔’’ یا اللہ ! مجھ سے سارا کچھ چھین لے ، مگر مجھے روٹی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا دے دے ۔ ‘‘
مجھ میں ولی خان کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں تھا ۔ میں میس سے باہر آنے کے بجائے کاؤنٹر کی طرف بڑھا ۔ میں نے کاؤنٹر تھپتھپایا ، تو میس انچارج نے بوکھلا کر آنکھیں کھولیں ، مگر مجھے دیکھتے ہی اس کے چہرے پر برہمی کے تاثرات آ گئے ۔ شاید اسے میری دخل اندازی بری لگی تھی ۔
’’ کیا بات ہے ؟ ‘‘
’’ کچھ مل جائے گا ؟ ‘‘
میرا لہجہ ا یسابے بس اور التجا آمیز تھا کہ جیسے میں صدیوں سے بھوکا ہوں ۔
’’ کچھ بھی نہیں ۔ ‘‘ اس نے دوبارہ آنکھیں میچ لیں ۔
’’ تم دیکھو ، تو سہی ۔ ‘‘ میں کاؤنٹرپر جھکا ۔ ’’ شاید کچھ مل جائے … ۔صبح کا بچا کھچا ۔ ‘‘’’ تمھارا دماغ تو درست ہے ۔ ‘‘ اس کا لہجہ تند ہو گیا۔ ’’ جب ایک بار بتا دیا ہے کہ کچھ بھی نہیں ، تو بار بار پوچھنے کی وجہ ؟ ‘‘
’’
شاید کچھ … روٹی کا ایک آدھ ٹکڑا … ایک بسکٹ … ‘‘ میرا لہجہ بھرا گیا ۔
’’ دیکھو صاحب ! ‘‘ وہ سنبھل کر کرسی پر بیٹھ گیا ۔ ’’ یہ ڈراما بند کرو اور جاؤ … زیادہ بھوک لگی ہے ، تو خود کشی کرلو، میرے پاس اس وقت کچھ بھی نہیں ۔‘‘
اس کے تضحیک بھرے لہجے نے مجھے غضب ناک کر دیا ۔ اچانک میں نے اسے گریبان سے پکڑا اور کاؤنٹر کے اوپر سے گھسیٹتاہوا باہر لے آیا ۔ شاید وہ ابھی تک غنودگی کے عالم میں تھا ۔ میں نے الٹا ہاتھ اس کے منہ پر رسید کیا ، تو وہ اچھل کر پیچھے جا گرا ۔ اس کے منہ سے نکلنے والی چیخ سے یوں لگتا تھا ، جیسے اس کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی ہو حالانکہ ایسا کچھ نہیں تھا ۔ ہ اٹھ کر بھاگنے ہی والا تھا کہ میں نے اسے پکڑ لیا ۔’’ کیوں نہیں ہے کچھ … راشن ڈپو میں کچھ نہیں ہے، میس خالی ہے ، تو پھر کہاں گیا کھانا ؟ تمھارے پیٹ میں … ؟ ‘‘ میں ہسٹریا والے مریض کی طرح حلق کے بل چیخا ۔
’’
ارے … ارے آفیسر ! ہوش میں آؤ ! کیا کر رہے ہو ؟ ‘‘ کسی نے مجھے کندھے سے پکڑ کر جھنجوڑا ۔
میں نے چونک کر اپنے آس پاس دیکھا۔ میس کا سارا عملہ ہمارے گرد اکٹھا ہو چکا تھا ۔ مجھے ہوش دلانے والا میرے ہی رینک کا فوجی تھا جس کی ڈیوٹی کبھی کبھی میرے ساتھ راشن ڈپو میں لگتی تھی ۔
’’
میں کیا کروں آفیسر ! وہ بھوکا ہے ۔ ‘‘ میں نے اس کے شانے سے اپنی پیشانی لگا کر سسکی لی ۔ اس نے مجھے اپنے ساتھ لپٹا لیا ۔
’’کون بھوکا ہے دوست ! ‘‘ اس کے سرخ و سفید چہرے پر حیرت اُمڈ آئی ۔
’’ دوست ! مجھے افسوس ہے کہ ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے تھا ، مگر جانے کیسے ہو گیا ؟ ‘‘
’’
دوست ! خود کو سنبھالو ۔ ‘‘ اس نے میرے کندھوں کو تھپتھپایا۔میں بڑی مشکل سے پاؤںگھسیٹتا ہوا باہر تک آیا ۔ میرے چہرہ دیکھ کر وہ اصل بات کی تہ تک پہنچ گیا ۔ اس نے کچھ بھی نہ پوچھا ۔ خاموشی سے میری اُنگلی تھامی اور بغیر سوچے ہم ایک طرف چل پڑے ۔
’’
تمھیںمعلوم ہے کہ پومی کون تھا ؟ ‘‘ اس نے اپنی نامکمل بات آگے بڑھائی ۔ مجھ سے بولا نہ گیا ۔ میں نے منہ کھولا ، مگر مجھے یوں لگا کہ جیسے میں سچ مچ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو دوں گا ، اس لیے میں نے جلدی سے اپنے ہونٹ بھینچ لیے ۔
’’
وہ میرا ایک چھوٹا سا سفید بکرا تھا … روئی کی طرح نرم و ملائم ۔ ‘‘ وہ دوبارہ بولنے لگا ، ’’ ۳؍ ماہ پہلے وہ پیدا ہوا تھا ۔ وہ جلد ہی میرا دوست بن گیا ۔ امی ابو کے بعد وہ میرا بہت اچھا ساتھی تھا ۔ جب جنگ شروع ہوئی ، تو ایک صبح جب میں جاگا ، تو وہ غائب تھا ۔ میں نے اسے پاگلوں کی طرح ڈھونڈا ۔ کونا کونا چھان مارا ، مگر وہ نہ ملا ۔‘‘
وہ سسک کر خاموش ہو گیا ، مگر صاف لگ رہا تھا کہ اس کے پاس کہنے کے لیے اور بھی بہت کچھ ہے ، مگر اتنا تلخ ہے کہ اس کی ہمت نہیں ہو رہی ، لیکن وہ خاموش بھی نہیں رہ سکتا تھا ، اس لیے دوبارہ بولا ۔’’ مجھے ایک جگہ بکرے کی ایک ننّی سی ٹانگ ملی ۔ وہ ٹانگ پومی سے ملتی جلتی تھی ۔ شاید وہی ہو ، مگر … مگر مجھے یقین ہے کہ وہ کوئی اور ہے ۔ پومی کھیلنے کے لیے کہیں گیا ہوگا اور راستہ بھول گیا ہو گا ۔ وہ ضرور واپس آئے گا ۔ ‘‘ وہ خیالوں میں گم ہو گیا ۔ ’’ فوجی لالہ ! جب وہ لوٹے گا ، تو میں اسے بہت ڈانٹوں گا ۔ کسی سے وہ نہیں ڈرتا ، صرف مجھ سے ڈرتا تھا ۔ میں تھوڑی دیر بولوں گا بھی نہیں ۔ میں کہوں گا جب مجھے تیری ضرورت تھی ، تو تو مجھے تنہا چھوڑ کر چلا گیا … دوست ایسے ہوتے ہیں کیا ؟ ‘‘
میں نے مڑ کر اس کے چہرے کو دیکھا ۔ اس کے چہرے پر بڑا کرب تھا ۔ پھر میری آنکھوں میں امنڈنے والی نمی نے اس کا کرب زدہ چہرہ دھندلا دیا ۔
’’ ہو سکتا ہے کہ وہ واقعی راستہ بھول گیا ہو ۔ ‘‘ میں نے اسے دلاسا دیا ۔ ورنہ مجھے یقین تھا کہ وہ کسی حملے میں مر گیا ہو گا ۔
’’
ہاں ! مجھے کیوں یقین ہے کہ وہ مر سکتا ہے نہ مجھے اس حال میں چھوڑ سکتا ہے ۔ ‘‘میرے جھوٹے دلاسے نے اس کا غم آدھا کر دیا ۔ میں اسے اور تسلی دینا چاہتا تھا ، مگر مجھ میں اب اور بولنے کی طاقت نہیں رہی تھی ۔
’’
مگر وہ بہت بھوکا ہو گا ۔ ‘‘ مجھے خاموش دیکھ کر وہ خودہی کچھ سوچ کر بولا ۔ ’’ وہ صرف میرے ہاتھ سے کھانا کھاتا تھا ۔ شاید وہ مجھ سے زیادہ بھوکا ہو ۔ ہم کچھ کھانا اس کے لیے بچا کر رکھیں گے ۔ وہ کسی بھی وقت آ سکتا ہے ۔‘‘
میرا دل چاہا کہ اکیلا کسی کونے میں چھپ کر گھٹنوں میں سر دے کر چلا چلا کر روؤں ۔ یہاں تک کہ میری آنکھیں خشک ہو جائیں ۔
ہمارا باقی کا سفر خاموشی سے طے ہوا ۔ ہم بے خیالی میں جہاں پہنچے تھے ۔ وہاں قطاروں میں ٹرک کھڑے تھے۔ میری آنکھیں امید سے چمک پڑیں کہ ہو سکتا ہے کہ ہمیں یہاں سے کچھ نہ کچھ مل جائے ۔ شاید ان میں کچھ رہ گیا ہو۔ شاید کسی ڈرائیور سے بات کرنے سے مسئلہ حل ہو جائے۔ ممکن ہے کسی نے کچھ بچا کر رکھا ہو ۔
میں نے ایک ٹرک میں ڈرائیور والے گیٹ کی طرف سے جھانکا ۔ اندر ایک ٹرک ڈرائیور سو رہا تھا ۔ میں نے اسے جگانا مناسب نہ جانا اور پچھلے حصے میں داخل ہو گیا ، مگر وہاں بھی کچھ نہیں تھا ۔ میں نے ایک ایک کر کے سب کی تلاشی لی ، مگر بے سود ۔مجھے چند ڈرائیور جاگتے ہوئے ملے ۔ وہ تاش کھیل رہے تھے ۔ میں نے ان سے بات کی ، مگر انھوں نے بے پروائی سے جواب دیا ۔
میں وہاں سے بھی مایوس لوٹ آیا ۔ میں جب ان سے کچھ دور ہوا ، تو انھوں نے بڑے زور کا قہقہہ لگایا تھا ۔ یہاں بھوک سے مرتے لوگوں کو دیکھ کر ان کا احساس پتھر ہو گیا تھا۔ انھیں حیرت ہو رہی تھی کہ ایک لاوارث بچے کے لیے میں اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر مارا مارا پھر رہا ہوں۔علاقے کے لوگوں پر ۳؍ مصیبتیں ایک ساتھ نازل ہوئی تھیں ۔ افغانوں نے کچھ لوگوں کو اپنا آلۂ کار بنایا۔ ان کی مدد کے لیے ان ممالک نے اپنے ایجنٹ بھیجے جنھوں نے سادہ لوح لوگوں کو اپنے جال میں پھنسا لیا ۔ پھر ان لوگوں نے ظلم و ستم کا بازار گرم کر ڈالا۔ خواتین کی عزتیں محفوظ نہ رہیں۔ لوگوں کو پکڑ کر جانوروں کی طرح ذبح کیا گیا ، جو بھی ان کے آڑے آیا، وہ پھر زندہ نہ رہ سکا۔یہ سب کچھ اسلام کے نام پرہوتارہا،وہی دین جوامن کادین ہے۔اس کواپنی مرضی کے مطابق مسخ کرکے اورتوڑموڑ کرپیش کیاگیا۔
حکومت پہلے تو اپنے مفادات کی وجہ سے ان سے غفلت برتتی رہی ، جب معاملات حد سے بڑھ گئے، تو انھیں ہوش آیا، لیکن اس وقت پانی سر سے بلند ہو چکا تھا۔ انھیں اتنا وقت مل چکا تھا کہ وہ اپنی جڑیں پورے ملک میں پھیلا سکیں۔ وہ اتنے مضبوط ہو چکے تھے کہ انھوں نے حکومت کو چیلنج کر دیا۔ ارباب ِاختیار نے مذاکرات سے ان حالات کو قابو کرنے کی کوشش کی۔ جب اس میں نا کامی ہوئی، تو پاک فوج نے تھوڑے ہی عرصے میں اس علاقے کو ایسے غنڈہ صفت اور شرپسندوں سے خالی کرا لیا ۔ ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ عالمی امن کا سب سے بڑا دعوے دار امریکا وہاں کے معصوم لوگوں پر ڈرون حملے کرنے لگا۔میں یہ سب کچھ سوچتا ہوا ابھی ٹرکوں سے باہر ہی نکلا تھا کہ اسی لمحے آسمان پر ایک قرمزی رنگ کا شعلہ چمکا۔ میں نے ایک طرف چھلانگ لگا کر دونوں ہاتھوں سے کان بند کر لیے اور اوندھے منہ زمین پر لیٹ گیا۔ اسی وقت ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔ فضا مسلسل دھماکوں سے لرز اٹھی ۔ مجھے اپنے کانوں کے پردے پھٹتے ہوئے محسوس ہوئے۔ مجھ پر پتھروں اور مٹی کی بارش ہوتی رہی۔ آخر سکوت چھا گیا۔ میں نے سہمی ہوئی نگاہوں سے سر اٹھا کر آسمان پر ایک ڈرون جہازکو واپس جاتے دیکھا۔ پھر مڑ کر ٹرکوں کی قطار کو دیکھا۔ کئی ٹرک تباہ ہو چکے اورکچھ جل رہے تھے کہ اچانک میرے اندر خطرے کی گھنٹی بج اٹھی۔ ٹرکوں کی ٹینکیاں کسی بھی لمحے آگ پکڑ کر پھٹ سکتی تھیں۔ نتیجے میں لوہے کے گرم گرم ٹکڑے ادھر بھی آ سکتے تھے۔اچانک مجھے ولی خان کا خیال آیا، جسے میں ٹرکوں سے کچھ فاصلے پر چھوڑ آیا تھا۔ میرا دل ڈوبنے لگا۔ میں جلدی سے اس طرف لپکا۔ وہاں اڑتی خاک اور ملبے کے سوا اور کچھ نہیں تھا ۔ بھاگنے کے دوران مجھے چوٹ بھی لگی ، مگر مجھے اس کا کوئی احساس نہیں تھا، کیونکہ میرے حواس پر ولی خان سوار تھا۔ میرے اندیشے کانٹوں کی طرح چبھ رہے تھے۔ اس ننّے اور بھوکے بچے کے بچ جانے کی امید بہت کم تھی۔میں اِدھر اُدھر دوڑنے لگا۔ جلد ہی وہ مجھے ایک دروازے کے نیچے مل گیا۔ اس وقت وہ دروازہ جل رہا تھا اور بہت گرم تھا، مگر میں نے پکڑکر پوری قوت سے ایک طرف پھینک دیا۔ میرے ہاتھ جل گئے ، مگر مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میرے اندر درد کی حس ہی مر گئی ہو۔ اس کی ایک ٹانگ گیٹ کے پھل سے کٹ گئی تھی۔ وہاں سے اب خون پرنالے کی طرح بہ رہا تھا، وہ زندہ تھا۔ میں نے اسے جلدی سے اٹھایا اور اندھا دھند ٹرکوں سے دور بھاگنے لگا۔ نشیب میں اتر کر میں نے اس کا جائزہ لیا۔ وہ ہچکیاں لے رہا تھا۔ اس کے متغیر چہرے کا رنگ تیزی سے زرد ہوتا جا رہا تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں روٹی کا ایک سوکھا ہوا چھوٹا سا ٹکڑا تھا، جو جانے کہاں سے اسے مل گیا تھا۔
’’
جنگ خود ایک مسئلہ ہے،یہ مسائل کوحل کیاکرے گی۔‘‘وہ اَٹک اَٹک کر بولنے لگا، پھر خاموش ہو گیا۔ میں نے اپنی قمیص اتاری اور اس کی ٹانگ سختی سے باندھ دی۔ اس وقت میں خود کو بہت مجبور سمجھ رہا تھا۔ اس کی ٹانگ سے بہتے خون میں کوئی کمی نہ آئی۔ میری خاکی قمیص جلد ہی سرخ ہوگئی اور اب لہو کے قطرے باہر رس رہے تھے۔
’’ فوجی لالہ! ‘‘ اس نے مجھے مخاطب کیا۔ ’’تم … تم میرے لیے رو رہے ہو؟‘‘
’’
ہاں!‘‘ میں نے بے اختیارہچکی لی۔
’’کیوں؟‘‘ اس کے چہرے پر کرب پھیل گیا۔
’’
اس لیے…اس لیے کہ میرے بچے! میں تمھیں بہت چاہتا ہوں۔‘‘ میرے آنسو اس کے چہرے پر گرنے لگے۔’’فوجی لالہ!‘‘ اس کا لہجہ کمزور پڑنے لگا۔
’’تم کچھ کہنا چاہتے ہو نا؟‘‘ میں نے اس کی پیشانی چوم کر پوچھا۔
’’ہاں…آں…ہاں…‘‘ اس نے سر کو ہلکی سی حرکت دی۔
’’
فوجی لالہ!یہ ہم نے امریکی لوگوں کا کیا بگاڑا ہے۔ یہ ہم کو بمبوں سے کیوں مارتے ہیں؟ ہم تو پہلے ان کی وجہ سے بھوک سے مر رہے ہیں۔ ’’ولی خان! میرے بچے! تم ہمت نہ ہارو۔‘‘
’’تم دنیا کو بتا دینا کہ…کک کہ…‘‘ اس سے بولا نہیں جا رہا تھا۔
’’ولی خان! میں سن رہا ہوں …بولو ۔ شاباش!‘‘
’’کک…کک کہ…بھبھ…بھبھ بھوک… ‘‘
اس کی بات ادھوری رہ گئی اور گردن ایک طرف کو ڈھلک گئی۔ میرے چہرے کو تکتی آنکھیں ہمیشہ کے لیے ساکت ہو گئیں۔ آنکھوں کی چمک ماند پڑ چکی تھی۔ وہ مر چکا تھا۔
’’
ولی خان…! بولو ولی خان…!‘‘ میں نے اسے سینے سے چمٹا لیا۔میں اس کے سینے پر سر رکھ کر بڑی دیر تک بلک بلک کر روتا رہا۔ میرے ساتھیوں نے آ کر مجھے اٹھایا۔ جو ٹرک ڈرائیور بچ گئے تھے، وہ ہمارے گرد کھڑے تھے۔ اب کسی کی آنکھوں میں تضحیک نہیں تھی۔ وہ پہلے ہی سے ولی خان کے ساتھ میری جذباتی وابستگی سے آگاہ تھے اور ممکن ہے اب اپنے اس مذاق پر شرمندہ ہوں۔