ایک پاکستانی کی آواز
میں اس وقت چند باتیں بحیثیت ایک پاکستانی کرنا چاہتا ہوں، لکھاری کی حیثیت سے بات کرنا ذرا آسان ہے کہ اس میں آپ کسی کو بھی رگید سکتے ہیں لیکن بحیثیت پاکستانی میں یہ واضح کر دوں کہ میں صرف ایک پاکستانی ہوں ، میرا کسی جماعت سے تعلق نہیں ہے، میرا کوئی جھنڈا نہیں ہے ماسوائے سبز ہلالی پرچم کے اور میں کسی کو بھی ووٹ دوں یہ خالصتاََ میرا ذاتی معاملہ ہے۔ پاکستان تقسیم سے لے کر آج تک چند مخصوص سیاسی خانوادوں کے باپ کی جاگیر بنا ہوا ہے، کبھی اس پر ٹوانے آ گئے تو کبھی وٹو، کبھی بھٹو آ گئے تو کبھی میاں، کبھی بزنجو آ گئے تو کبھی پلیجو، کبھی بگٹی آ گئے تو کبھی اچکزئی، کبھی خان آ گئے تو کبھی نیازی، لیکن کیا کبھی اس ملک کی سیاست میں کوئی نائی، موچی، ترکھان، لوہار، پرچون فروش ، کوئی الیکٹریشن، کوئی موٹر مکینک برسر اقتدار آ سکا؟
.
کیا پاکستان کا آئین یہ نہیں کہتا کہ کوئی بھی پاکستانی جس کے پاس پاکستان کی شہریت ہو وہ پاکستان کا وزیر اعظم یا صدر بن سکتا ہے، تو پھر یہ تفریق کس نے پیدا کی، کیوں اس سسٹم نے کسی غریب ماں کے بچے کو ملک کا صدر اور وزیر اعظم نہیں بننے دیا، کیا بھٹو کے بعد اس کی اولادیں، ان کے بعد ان کی اولادیں اور اسی طرح نواز شریف کے بعد اس کی اولاد در اولاد قوم غلامی کرے یہ غلامی کرنا اس آئین کی کونسی منحوس شق سے ثابت ہے، ہے کوئی جواب دینے والا؟
.
یعنی ایک عام پاکستانی جو کسی مشہور سیاسی خاندان سے تعلق نہ رکھتا ہو وہ مسند اقتدار سے اتنا ہی دور ہے جتنا ایک گنہگار جنت سے دور، باتیں نظام جمہور کی اور جمہور ایک کمی کمین سے زیادہ کچھ نہیں ان کے لئے۔ ان کو کس نے خدا بنا دیا کہ یہ لوگوں کی تقدیروں کے فیصلہ کریں کہ جنت ان کے لئے اور جہنم غریب کا مقدر۔ شراب یہ پئیں، سود یہ کھائیں، رشوت یہ پیش کریں لیکن پھر بھی جنتی اور جو غریب اپنی عزت پر آنچ آنے کے خیال پر غربت کے ہاتھوں اپنی بھی جان لے لے اور بچوں کو بھی کہیں غرق کر دے وہ مجرم۔ یہ کہاں کا انصاف ہے، ہے کوئی جواب دینے والا۔ دکھاوے کی حد تک ایک دوسرے کو کتا کتا کہنے والے جب خطرہ محسوس کریں کہ ان سے اقتدار چھننے والا ہے تو اکٹھے ہو کر عوام کا مقابلہ کریں کہ یہ کمی کمین، نائی موچی، موٹر مکینک کہیں ان کے جبڑے نہ چیر دیں اس سے پہلے ہی ان کی آواز کو دبا دیا جائے۔
.
ایک منٹ کے لئے عمران خان کو اس جاری آزادی مارچ سے الگ کر دیں، قادری صاحب کو بھی الگ کر دیں، اب سوچیں کہ کیا جو مطالبات کئے جا رہے ہیں حکومت سے وہ درست ہیں یا غلط۔ آج قادری صاحب کے دھرنے کا یہ ایک فائدہ تو عوام کو ہوا کہ پولیس اپنی اوقات میں آ گئی اور کوئی بھی خلاف قانون حکم ریاست ماننے سے انکاری ہو گئی۔ اگر اسی طرح الیکشن اصلاحات نافذ ہو جائیں، بائیومیٹرک سسٹم آ جائے، کرپٹ لوگوں کو قانون کے شکنجے میں کسا جائے، جنہوں نے عوام کے ووٹوں میں خرد برد کی ہے ان کو سرعام کوڑے مارے جائیں تو کیا کسی کو جرات ہو گی کہ وہ خواب و خیال میں بھی ایسا کرنے کے بارے میں سوچے۔ یہ مت دیکھیں کہ کون کہہ رہا ہے، یہ دیکھیں کہ کیا کہہ رہا ہے۔
.
آج جمہوریت کو مشروط کر دیا گیا ہے نواز شریف کے وزیر اعظم اور شہباز شریف کے وزیر اعلیٰ قائم رہنے سے۔ اگر اب بھی یہ بے وقوف اور عقل سے پیدل قوم یہ سمجھتی ہے کہ یہ سب کچھ جمہوریت کی مضبوطی کے لئے کیا جا رہا ہے تو کل ایک کام کرے تمام قوم کہ بیلچے اور کدال لے کر قبرستانوں میں چلی جائے اور خود کو زندہ دفن کر لے۔ آج اسفند یار ولی، فضل الرحمان، ایم کیو ایم، پی پی پی، نون لیگ اور بی این پی ایک ہو چکے ہیں، ان کا محاذ کون ہیں۔ کون نشانے پر ہے۔ بلاشبہ عوامِ پاکستان کہ انہیں اپنا حق مانگنے کا قرینہ سکھانے والے دو بے وقوف آ گئے ہیں۔ ان کی کوشش یہی ہے کہ اس فتنے کو یہیں پر دفن کر دیا جائے تا کہ دوبارہ کوئی یہ جرات نہ کر سکے۔ اٹھو، جاگو پاکستانیو، میں ان لوگوں میں ہوں جو آسودہ حال لوگ ہیں، تم میں سے بھی کچھ ہوں گے لیکن اکثریت ان کی ہو گی جو کیو موبائیل کے فونز سے آن لائن ہوتے ہو، ذاتی کمپیوٹرز بھی نہیں ہیں اکثر کے پاس، کئی صبح آفس لفٹ لے کر جاتے ہیں، کئی ایسے ہیں جن کی بیویاں بھی جابز کرتی ہیں، یہ سب آن واحد میں نہیں بدلے گا لیکن جدوجہد جاری رکھو، کسی حرف غلط کو حفظ کرنے کی بجائے اس کو یکبارگی مٹا ڈالو، اسی میں بقائے رازِ ملت پوشیدہ ہے،
خداہمیں عقل سلیم عطا فرمائے، آمین۔
منجانب عام پاکستانی