نواز نے 500ملین پائونڈ برطانیہ کیسے منتقل کیے؟
ٹیکس بچانے اور اپنے کاروبار اور کمپنیوں کو سرکاری وسائل سے بے تحاشا وسعت دینے کے لیے میدان سیاست میں کودنے والے نوا زشریف اور عدلیہ مبینہ طور پر سوئس بینک میں موجود صدر آصف علی زرداری کے منی لانڈرنگ کے 6 کروڑ ڈالر پاکستان واپس لانے کے لیے بہت سرگرم ہیں لیکن نواز شریف کے 32 ملین ڈالر کے منی لانڈرنگ کے کیس میں عدلیہ سٹے دے کر چین کی نیند سو رہی ہے۔ نواز شریف کی منی لانڈرنگ کی یہ رقم لندن کے کسی بینک میں موجود ہے جس کے تمام ثبوت کیس کی فائل میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ برطانیہ میں پراپرٹی اور رہائشی سکیموں کا سب سے بڑا کاروبار نواز شریف کے فرزند حسن نواز کررہے ہیں جنہوں نے بقول مبشر لقمان برطانیہ کے ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے سامنے 500 ملین پائونڈ کے اپنے کاروباری اثاثے ظاہر کیے ہیں۔
یہ بیسیوں ارب روپے بھی پاکستان سے برطانیہ پہنچے ہیں اور یقیناً غیر قانونی طریقے سے ہی برطانیہ منتقل کیے گئے ہیں کیونکہ اتنی بڑی رقم ملک سے باہر منتقل کرنے کے لیے اس پر ٹیکس ادا کرنا لازمی تھا۔ اس طرح یہ منی لانڈرنگ کا کیس پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا کیس بن سکتا ہے اس طرح آصف علی زرداری کے 6 کروڑ ڈالر اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہیں۔ نواز شریف کو حکومت پر یہ برتری حاصل ہے کہ ان کے پاس میڈیا کوآرڈینیٹرز کی ایک بہترین ٹیم موجود ہے اور وہ میڈیا کے اپنے حامی سیکشن سے بہترین تعلقات استوار رکھتے ہیں جس کے باعث نواز شریف کی جانب سے وفاقی حکومت پر الزامات لگانے کی گھن گرج اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وفاقی حکومت کے وزیروں کی وضاحتیں اور جوابی الزماات اس شور میں دب کر رہ جاتے ہیں۔ میرے ایک دوست صحافی جو پیپلز پارٹی کے حامی ہیں جب انہیں پیپلز پارٹی کی کمزوریوں پر غصہ آتا ہے تو وہ برملا کہہ اٹھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو نااہلیت کی بیماری ہے۔ بہرحال نواز شریف نے پاکستان میں سیاست کسی نہ کسی ادرے کے سہارے کی ہے۔ پہلے ان کا سہارا فوج ہوا کرتی تھی اور اب کوئی اور۔پورے ملک کی وکلائ تنظیموں نے یک زبان ہو کر یہ کہا ہے کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اس وقت تک ملک کے آئینی و قانونی وزیراعظم رہیں گے جب تک ان کے خلاف سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ نہیں آجاتا اور اس کے بعد ان کی نظر ثانی کی اپیل کا بھی فیصلہ نہیں کردیا جاتا لیکن نواز شریف ملک بھر کی قانونی برادری کی یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں۔
سابق صدر مشرف کے دور میں ایک عدالت نے طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں نواز شریف کو 25 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ یہ سزا عدالت نے ایک اخلاقی جرم میں دی تھی۔ نواز شریف کو سعودی عرب بھیجتے وقت سابق صدر مشرف نے اپنے صدارتی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کی یہ سزا معاف کر دی تھی لیکن اتنی بھاری سزا کے باعث نواز شریف الیکشن لڑنے کے نااہل ہوگئے۔ نواز شریف نے واپس آکر سپریم کورٹ میں اس سزا کے خلاف اپیل دائر کی جسے 9 سال کے بعد ایک نئی مثال قائم کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے سنا اور کہا کہ وہ ایکشن لڑ سکتے ہیں کیونکہ صدارتی معافی کے ساتھ ہی ان کی نااہلیت بھی ختم ہوگئی ہے تاہم یہ اپیل ابھی تک زیر التوائ ہے اور نواز شریف الیکشن لڑنے کے لیے آزاد ہیں جب کہ وہ تیس سیکنڈ کی سزا پانے والے وزیراعظم کو نااہل قرار دے رہے ہیں۔ نواز شریف جوپنجاب حکومت کے ذریعے ملک کی 66 فیصد آبادی پر حکومت بھی کررہے ہیں اور اپوزیشن کے مزے بھی لے رہے ہیں اسے کہتے ہیں ایک ٹکٹ میں دو مزے۔
ان دونوں مزوں میں سے نواز شریف ایک مزا بھی گنوانا نہیں چاہتے۔ اس لیے انہیں وہ لوگ بہت برے لگتے ہیں جو انہیں اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا مشورہ دیتے ہیں البتہ وہ وزیراعظم سے استعفیٰ مانگنے کے بارے میں بہت سنجیدہ ہیں۔ وہ اپنے بیانات کے ذریعے مرنے یا مارنے کی حد تک پہنچ چکے ہیں دراصل انہوں نے دوبارہ 1990ئ کی دہائی کی سیاست شروع کر دی لیکن فرق یہ ہے کہ ان کی پہلی محاذ آرائی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نرم خو خاتون محترمہ بے نظیر بھٹو سے رہی لیکن اس مرتبہ ان کے مدمقابل صدر آصف علی زرداری جیسے شاطر سیاست دان ہیں جن کی سیاسی چالیں کھیلنے کی مہارت کو پورے ملک کے سیاستدانوں نے تسلیم کرلیا ہے۔ یہ امر بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ نواز شریف سات یا آٹھ ماہ آسانی سے عام انتخابات کا انتظار کرسکتے تھے لیکن انہوں نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز احتجاجی تحریک سے شروع کر دیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ٴٴفرینڈلی اپوزیشنٴٴ کے الزام کے داغ کو اپنے دامن سے ہٹانا چاہتے ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ محاذ آرائی سے اپنے ووٹ بینک میں اضافہ کرسکیں گے لیکن اس کے نقصانات ان کی عقل سے بالا تر ہیں۔ شدید محاذ آرائی کی صورت میں ان کے خلاف چھوٹے صوبوں میں ان کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوگا کیونکہ انہیں چھوٹے صوبوں میں صرف پنجاب کا لیڈر سمجھا جاتا ہے۔ محاذ آرائی کی صورت ان پر ماضی میں لگنے والے الزامات تازہ ہوکر سامنے آجائیں گے۔ سپریم کورٹ کے نام پر سیاسی جنگ لڑنے کے باعث نواز شریف اس ادارے کو فائدہ نہیں بلکہ نقصان پہنچائیں گے اور ایسے انصاف فراہم کرنے والے ادارے کو پاکستان کی گندی سیاست میں گھسیٹ کر وہ اس ادارے کی حیثیت کو بھی عوام کی نظروں میں مشکوک بنا دیں گے۔ اگر ان کی محاذ آرائی کے نتیجہ میں کوئی غیر آئینی سیٹ اپ برسر اقتدار آگیا تو پھر انہیں دس سال کے انتظار کا عذاب جھیلنا پڑے گا اور ملک میں آزاد عدلیہ کا تصور بھی معدوم ہو جائے گا۔ ایک بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت ان کے شور شرابے سے مرعوب ہو کر حکومت چھوڑنے والی نہیں۔ وہ صرف شہید ہو کر ہی اقتدار سے رخصت ہونا پسند کرے گی اور ایک مرتبہ پھر شہادت کا ووٹ حاصل کرنے کی تیاری کرے گی۔ شہادتیں پیپلز پارٹی کے مقدر میں لکھی ہوئی ہیں اور ہر شہادت اسے پہلے سے زیادہ قوت بخشتی رہی ہے۔
No comments:
Post a Comment